جب جب بہی علی اکبر اپنے بابا حسین علیہ السلام سے جنگ کی اجازت لینے کہ لیے آتے تہے تو امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے کوئی نا کوئی آگے آکر کہتا تہا پہلے پہلے ہمیں اجازت دی کئوں کہ ہم ہمشکل ئی رسول علی اکبر کو شہید ہوتا نہی دیک پائیں گے۔
جب ہر ایک رسول اللہ کے نواسہ امام حسین کے آگے شہید ہوتے گئے تو علی اکبر امام حسین کے پاس آکر فراتے ہیں بابا مجھیں اجازت دے کہ میں بہہی اللہ کی راہ میں قربان ہوجاؤں امام حسین علیہ السلام نے علی اکبر کو دیک فرمایا ای اللہ اب اس کو ترے دین پر قربان ہونے کے لیے بہیج رہا ہوں جو صورت سیرت میں ترے رسول کی طرح ہے مجھے جب جب بہی ترے رسول کی زیارت کرنی ہوتی میں میں علی اکبر کے چہرے کی زیارت کرلیتا تہا۔
امام حسین علیہ السلام نے علی اکبر کو اجازت دیتے ہوئے کہا جاؤ اور خیموں میں بیبیوں سے ہوکر مدان میں جاؤ علی اکبر جیسے ہی خیموں میں گئے تو خیموں سے زور زور سے رونہ کی آوازیں شروع ہوگئی علی اکبر خیموں سے ہوکر جنگ کہ میدان میں پہنچے فوج یزید سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ای ظالموں دیکھوں تمہارے پرچم پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے دیکھو میں اسی رسول کا ہم شکل ہوں تم کیسے مسلمان ہو جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہو اسی کے دین کو تسلیم نہی کرتے اتنے میں فوج یزید نے امام علی اکبر پر حملا کردیا جو جو بہی علی اکبر کے سامنے جاتا علی اکبر انہیں دادا علی کی طرح فنار کردیتے جب بڑے بڑے بہادر بہی علی اکبر سامنے نہی ٹک سکے تو عمر بن سعد نے کہا چاروں طرف سے علی اکبر کو گہیر لو عمر بن سعد کہ حکم پے 1800 کے لشکر نے علی اکبر کو گہیر لیا اور کہیں سے کسی نے نزا پہیکا کہیں سے کسی نے تیر مارا ایک ظالم علی اکبر کے پاس آکر علی اکبر کے کلیجے میں پرچی گہوپ دیتا ہے علی اکبر گھوڑے پر نہی رہ سکا تو کربلا کی زمین پر گیر گیا اور خیموں کی طرف موں کر کہ کہنے لگے بابا علی اکبر کا آخری سلام قبول کجیے امام حسین علیہ السلام نے جسے ہی علی اکبر کی سدا سنی تو کربلا زمیں کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے ای اللہ میرے علی اکبر کی قربانی قبول کرنا جسے ہی امام حسین علی اکبر کے پاس پہنچے تو دیکھ کہ علی اکبر خون میں لہو لہان تھے اور علی اکبر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ درد کی آہ بھر رہے تھے۔
یے دیک کر امام حسین علیہ السلام فرمانے لگے کیا ہوا میرے بیٹے کیا سینے میرے تکلیف ہے تو امام علی اکبر نے فرمایا بابا ایک ظالم نے میرے سینے میں پرچی مار کر توڑ دی امام حسین علیہ السلام نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتے ہیں ای دادا ابراہیم دیک نا میرے آنکھوں پر پٹی ہے اور نا ہی میرے علی اکبر کے ہاتھ بندھے ہیں ای اللہ میری اس قربانی کو قبول کرنا۔ امام حسین علیہ نے ایک ہاتھ زمین پر رکھا اور ایک ہاتھ پرچی میں ڈال کر کہیچ نے لگتے ہیں جسے ہی امام حسین نے پرچی کو کہیچا تو پرچی کے ساتھ علی اکبر کا کلیچا بہی ہاتھ میں آگیا ای اللہ مجھے اس زمیں پر علی اکبر کے سوا کوئی پیارا نا تہا اگر آپ مجھے ہزاروں علی اکبر بہی دیتے تو بہی تیرے دین پے قربان کرتا۔
0 Comments